Friday 27 May 2016

بیوی کے ساتھ چند اچھے بول! ڈاکٹر کا خرچہ بچا سکتے ہیں


ازدواجی زندگی! ذہنی ہم آہنگی ایک دوسرے کی دکھ سکھ میں بھرپور شرکت اور الفت ومحبت کے علاوہ باہمی اعتماد کی بنیادوں پر ہی قائم رہ سکتی ہے۔ اگرچہ ایسا شاید ہی کوئی شادی شدہ جوڑا ہو جو یہ کہے کہ ان کےدرمیان کبھی تکرار نہیں ہوئی۔
اکثر شادی شدہ خواتین و مرد یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ’’ازدواجی زندگی میں اب وہ پہلے جیسی گرم جوشی نہیں رہی جو ہم میاں بیوی کے درمیان شادی کے ابتدائی برسوں میں موجود تھی۔‘‘ اکثر یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ شادی کے ابتدائی دنوں میں میاں بیوی کے درمیان جو اُلفت و محبت کے جذبات موجود ہوتے ہیں‘ وہ دن گزرنے کے ساتھ سرد مہری میں تبدیل ہونے لگتے ہیں۔ اگرچہ اس بات کا اطلاق تمام شادی شدہ جوڑوں پر نہیں کیا جاسکتا ہے تاہم ایسے مردو خواتین کی تعداد بھی کم نہیں جو ازدواجی زندگی میں رفیق حیات کے درمیان سرد مہری کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ سرد مہری اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی ضروری باتوں کا جواب بھی صرف ہوں، ہاں ہی میں دیتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ ایک چھت کے نیچے اور ایک ہی چار دیواری میں زندگی بسر کرنے کے باوجود ان میں اجنبیت کی وہ دیوار کھڑی ہوتی ہے جیسی کہ کسی ریلوے اسٹیشن کے ویٹنگ روم میں بیٹھ کر ٹرین کی آمد کا انتظار کرنے والے دو مسافروں کے مابین حائل ہوتی ہے۔ازدواجی زندگی! ذہنی ہم آہنگی ایک دوسرے کی دکھ سکھ میں بھرپور شرکت اور الفت ومحبت کے علاوہ باہمی اعتماد کی بنیادوں پر ہی قائم رہ سکتی ہے۔ اگرچہ ایسا شاید ہی کوئی شادی شدہ جوڑا ہو جو یہ کہے کہ ان کےدرمیان کبھی تکرار نہیں ہوئی‘ کبھی لڑائی جھگڑا نہیں ہوا یا کبھی بھی اختلاف رائے کی نوبت نہیں آئی لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ان کے درمیان الفت و محبت برقرار رہتی ہے۔ ازدواجی زندگی میں مذکورہ باتوں کا رونما ہونا یقینی ہے۔ پرانی مثال ہے کہ ’’جہاں دو برتن ہوتے ہیں وہ ٹکراتے بھی ہیں‘‘ مانا کہ برتن ٹکراتے ہیں اور کھنکھناہٹ بھی ہوتی ہے مگر صرف کچھ دیر کیلئے وہاں اگر اس عارضی ٹکراؤ کو بنیاد بنا لیا جائے تونہ صرف ازدواجی زندگی میں کے حسن کو گہن لگ جاتا ہے بلکہ سرد مہری بھی جنم لینے لگتی ہے اور اگر ایک بار جذبوں میں سرد مہری آجائے تو نہ صرف زندگی کو گھن لگ جاتا ہے بلکہ ازدواجی زندگی پر بھی سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔
ازدواجی زندگی میں سرد مہری کیوں پیدا ہوتی ہے۔ اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک تو ناپسندیدہ یا تکلیف دہ باتوں یا حرکات کا بار بار دہرایا جانا اور دوسرا بھید یا خود کو وقت کے ساتھ ڈھالنے کی خواہش کا فقدان‘ جہاں تک پہلی وجہ ہے وہ مزاج آشنائی کی کمی کے باعث جنم لیتی ہے‘ دیکھا گیا ہے کہ بعض اوقات ایک فریق نہایت حساس طبیعت کا مالک ہوتا ہے تو دوسرا جوشیلی طبیعت کا اس لیے یہ کہا جاسکتا کہ درست مزاج آشنائی نہ ہو تب کوئی بھی بات کسی ایک فریق کیلئے دوسرے فریق سے سرد مہری کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بات بات پر روک ٹوک بلاوجہ پوچھ گچھ، بے جاضد مزاج ناآشنائی کی پیداوار ہوسکتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ سرد مہری طویل مدت تک کی ہو۔ بعض لوگ بہت زیادہ بولنے اور تنک مزاج ہونے کے باوجود ’’پل میں تولہ‘ پل میں ماشہ‘‘ کی مثل بھی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں رفیق حیات سےسرد مہری کی مدت نہایت مختصر ہوتی ہے تاہم اگر دونوں فریقین ہی زود حس اور ناپسند ہوں تو پھر یہ خطرہ بڑھ جاتا ہے کہ ایسے میں اگر کسی فریق کی بات دوسرے کے دل کو لگ گئی تو عمر بھر کیلئے ان کے دلوں میں سرد مہری کے جذبات جنم لے سکتے ہیں۔شوہر کو روزمرہ کی زندگی میں روزی کمانے کی مشکلات، لوگوں سے نرم گرم تعلقات‘ دباؤ تضاد اور ذہنی کشمکش سے واسطہ پڑتا ہے۔ بیوی کو گھر چلانے کیلئے پیسوں کی کمی‘ بچوں کی غذا، لباس، تعلیم کے لیے وسائل کی کمی اور مستقبل کی فکر درپیش رہتی ہے جب ایک وفا شعار بیوی اپنے خاوند سے یہ شکایت کرتی ہے کہ تم نے تو مجھ سے کبھی پیار سے بات تک نہیں کی تو شوہر کے پاس سادہ سا جواب ہوتاہے کہ ’’تم سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے‘‘ اب سوچئے کہ اگر بیوی کی یہ تکرار جاری رہے تو غم روزگار کا مارا شوہر جس وقت اتنا تنگ آسکتا ہے کہ وہ بیوی کے سوالوں سے گھبرا کر سرد مہری کا لبادہ اوڑھ لے یا یہ کہ اگر بیوی ملازم پیشہ ہو اور دفتری مصروفیات سے تھک ہار کر گھر لوٹنے پر وہ گھر داری میں مصروف ہوجائے اور اس کا شوہر یہ شکایت کرے کہ وہ اب پہلی جیسی توجہ اس پر نہیں دیتی تو یہ بات اگر وہ متواتر کہتا ہے تب بیوی بھی تنگ آکر جواب دینے کے بجائے خاموشی اختیار کرکے سرد مہری میں اپنی پناہ ڈھونڈ سکتی ہے۔ اب یہ میاں بیوی کی سوجھ بوجھ پر منحصر ہے کہ زندگی کی جھمیلوں اور الجھنوں سے چندلمحوں کیلئے جان چھڑا کر پیار سے ایک دوسرے کی خیریت دریافت کرلیا کریں۔ محبت بھرے گلے شکوے کرلیا کریں اور غم دوراں کو نظرانداز کرکے درگزر سے کام لے لیا کریں تاکہ غم حیات ان کی ازدواجی زندگی پر اپنامنفی اثر نہ ڈال سکے۔
چاہنا اور چاہے جانا ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے۔ میاں بیوی میں ایک دوسرے کی جانب سے تو یہ خواہش اور بھی شدید ہوتی ہے۔ اس لیے شوہروں کو بھی چاہیے کہ روز نہ سہی لیکن ہفتے میں ایک آدھ گھنٹہ اپنی بیوی کے ساتھ دنیا کے جھگڑوں سے دور‘ گھر سے باہر کسی پارک، تفریح گاہ یا کسی ریستوران میں کچھ وقت گزارے اور ایک دوسرے سے حال دل کہیں۔ یاد رکھیں کہ ماحول انسان کے مزاج پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ گھرکے باہر کھلےماحول میں بیٹھ کر کہی جانے والی بات کا اثر زیادہ گہرا ہوتا ہے اور اگر ماحول اچھا ہو تومزاج بھی شگفتہ ہوجاتا ہے۔ ایسے میں انسان کڑوی کسیلی بات بھی صبرو سکون سے سن اور برداشت کرلیتا ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ وہ جوڑے جو کبھی ایک ساتھ گھر سے باہر وقت نہیں گزارتے ہیں، سرد مہری ان کو جلد اپنے شکنجے میں جکڑ لیتی ہے۔پیار و محبت سے دو جملے کہنے میں نہ تو وقت لگتا ہے اور نہ ہی رقم خرچ ہوتی ہے لیکن ان کو اثر ہوتا ہے وہ بہت دیرپا ہوتا ہے۔ یہ الفاظ ایک دوسرے کے ذہنوں میں نظر نہ آنے والی ایسی لہریں اور ایسے ارتعاشات پیدا کرتے ہیں جو ان کے رگ و پے میں محبت کی رو دوڑا دیتے ہیں۔ میاں بیوی میں سرد مہری کو ختم کرنے کیلئے کوئی دوا اب تک ایجاد نہیں ہوئی ہے لیکن یہ کہا جاتا ہے کہ آپ اچھا بول کر بیوی کے ڈاکٹر کا خرچ بچا سکتے ہیں اچھے ماحول میں خلوص دل سے کہے چند محبت بھرے لفظ حالات کو بدل دیتے ہیں۔
مرد ہو یا عورت انسان بڑا خود غرض واقع ہوا ہے۔ مرد اپنی بیوی کو اور بیوی اپنے خاوند کو بے حس سمجھتی ہے۔ اگر یہ دونوں اس حقیقت کو سمجھیں کہ وہ زندہ خلیات سے بنے ہوئے ہیں اور ان میں بھی چاہنے اور چاہے جانے کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے، ضرورت ہے تو صرف اور صرف موقع محل کی نسبت سے اس کےاظہار کی۔ اگر اس حقیقت کو سرد مہری کی شکایت کرنے والےجان لیں اور اس پر عمل کریں تو ان کی یہ شکایت ختم ہوسکتی ہے۔